Madarsa

تعلیم قوموں کی ترقی کی ضامن اور ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے،تعلیم ہی کے ذریعہ معاشرہ میں تہذیب اور عمدہ اخلاق و اقدار کو فروغ ملتا ہے
موجودہ دور میں مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ کم از کم دسویں جماعت تک کی تعلیم کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے اس کے بغیر ضروری دستاویزات کی تکمیل اور حکومتی اسکیموں سے استفادہ مشکل ہے، ان باتوں کا خیال رکھتے ہو ئے جامعہ عربیہ زینت القرآن میر وہار مبارک پور دہلی نے اپنا یہ مشن بنایا ہے کہ قوم کے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے بھی آراستہ کرنا بیحد ضروری ہے تاکہ آنے والی نسل کا سر اونچا رہے اور ہم کسی بھی جگہ کسی بھی موقع پرکسی سے مرعوب نہ ہوں اسی قابل تقلید کارنامے کو انجام دینے کا کام دہلی شہر کے اس پسماندہ علاقہ جو دہلی اور ہریانہ کا سرحدی علاقہ کہلایا جاتا ہے جو رقبہ کے لحاظ سے دہلی میں ہے لیکن شہری سہولیات سے زیادہ تر محروم ہے ایسے علاقہ میں دینی و عصری تعلیم کا حسین سنگم جامعہ عربیہ زینت القرآن و انڈین اسلامک اکیڈمی فدائے ملت منزل کا قیام عمل میں لایا گیا جو ایک طرف حضرت نانوتوی کے خوابوں کی تعبیر ہے تو دوسری طرف سرسید کی فکر کا ترجمان بھی جہاں سے مدرسے کے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ بارہویں جماعت کی تعلیم اور کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کورس کرانے کا ارادہ ہے تاکہ وہ اسکول اور کالج کے بچوں کی طرح مین اسٹریم ایجوکیشن سے جڑ سکیں اور ساتھ ہی ان بچوں کو جو اسکول جاتے ہیں نویں کلاس سے کونسلنگ کے ذریعہ اچھی کوچنگ کرائی جائے تاکہ وہ اونچی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوں اکثر والدین اپنے بچوں کے بارے میں بارہویں کلاس کرنے کے بعد فیصلہ کرتے ہیں جو ہماری سب سے بڑی غلطی ہوتی بچوں کے مستقبل کے لئے

جامعہ عربیہ زینت القرآن کےقیام کا مقصد*:آج کے اس دور پر فتن ، الحادوارتداد میں مدارس دینیہ اسلامی قلعے اور حفاظت دین و ایمان کی محفوظ و مضبوط پناہ گاھیں ہیں، جھاں نو نہالان اسلام کی تعلیم و تربیت اور اخلاق و کردارسازی کی جاتی ہے،
ہمارا کام اس وقت تک قابل اطمنان نہیں ہوگا جب تک مسلمان اپنے بچوں کی تعلیم کو انکی غذا و دوا سے زیادہ اہم نہ سمجھیں گے اور دینی مدارس و مکاتب کو اسی سنجیدگی اور اسی ذوق و شوق سے قائم نہ کریں گے جس سنجیدگی اور ذوق و شوق سے وہ مساجد تعمیر کرتے ہیں کیونکہ اس مساجد کی آبادی ان مدارس و مکاتب کے بغیر ممکن نہیں اور جب تک اس راہ کے مصارف کو اپنا اہم ترین اور مقدس ترین فرض نہ سمجھیں گے اور اس میں صدیقی ذوق عثمانی جزبے کے ساتھ حصہ نہ لیں گے اور جب تک ہم اس راہ کی کوشش کو عبادت کا درجہ نہیں دیں گے اسی مقصد کے حصول کے پیش نظر باہری دہلی کے اس ارتداد زدہ علاقے میں جامعہ کا قیام عمل لایا گیا